Together in Jamshedpur:
Together in Jamshedpur:
جمشیدپور میں ایک ساتھ: ایک محبت کی کہانیسید ساحل احمد ایک 30 سالہ انجینئر تھے جو جمشیدپور میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان کی زندگی ڈیڈ لائنز، بورڈ میٹنگز اور پرسکون شاموں کا امتزاج تھی جو ان کے پسندیدہ شوقوں—شطرنج کھیلنے، اردو شاعری پڑھنے اور فٹ بال میچز کا پرجوش دنبال کرنے—میں گزرتی تھیں۔فرحانہ احمد، جو 28 سال کی تھیں، وہی شہر میں سافٹ ویئر ڈویلپر تھیں۔ وہ بھی ادب اور شطرنج سے محبت کرتی تھیں، اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور جھارکھنڈ کے چھپے ہوئے خزانوں کی دریافت میں گہری دلچسپی رکھتی تھیں۔ اگرچہ وہ مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں، مگر ان کی دنیاوں میں بہت سے مشترکہ دھاگے موجود تھے۔ان کی کہانی ایک خوشگوار خزاں کی شام کو جمشیدپور کے ایک کمیونٹی سینٹر میں منعقدہ کلچرل فیسٹیول پر شروع ہوئی۔ سید ساحل ایک دوستانہ شطرنج مقابلے میں مگن تھے جب فرحانہ مسکراہٹ کے ساتھ قریب آئیں۔"کیا میں شامل ہو سکتی ہوں؟" انہوں نے پوچھا، ان کی آنکھوں میں چیلنج کی چمک تھی۔ساحل نے ان کا خوش آمدید کہا، یہ دیکھ کر متوجہ ہوئے کہ وہ پیسوں کو کس قدر فطری طور پر حرکت دیتی تھیں، جیسے کوئی تجربہ کار کھلاڑی۔ مووز کے درمیان، وہ شاعری اور موسیقی پر باتیں کرنے لگے، اور فیض احمد فیض اور میر تقی میر جیسے پسندیدہ شعرا کی دریافت کی۔دن گزرتے گئے، ہفتے بنے، اور ان کی دوستی پھول کی طرح کھلنے لگی۔ وہ آرٹ ایگزیبیشنز میں گئے، ڈمنا جھیل پر سائیکلوں پر گھومے، اور دوپہروں کو ایسٹ بنگال اور موہن بگاں جیسے فٹ بال ٹیموں کی حکمت عملیوں پر بحث کی۔یہ ہم آہنگی آزمائشوں کا سامنا کرنے لگی۔ کبھی خاندانی توقعات بھاری چھاؤں ڈالتیں۔ ساحل کے والدین چاہتے تھے کہ وہ اپنے قریبی برادری میں شادی کریں، جبکہ فرحانہ کا خاندان دفتر کی محبتوں سے خدشات رکھتا تھا، کیونکہ انہیں کیریئر پر اثر کا ڈر تھا۔کام کے دباؤ نے بھی انہیں الگ کھینچا۔ ڈیڈ لائنز، دیر رات تک کام، اور بزنس ٹرپس نے ان کے بڑھتے ہوئے رشتے کو چیلنج کیا۔ جب ساحل ایک اہم میٹنگ کی وجہ سے فرحانہ کی پروموشن کی تقریبات سے غائب ہو گئے، تو غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ایک شام، جوبلی پارک کو دیکھتے ہوئے ایک کیفے میں، ایک خاص طور پر تناؤ بھرے دن کے بعد، انہوں نے جھگڑا کیا—تلخ الفاظ کا تبادلہ ہوا، اور وہ دکھی ہو کر الگ ہو گئے۔دونوں اپنی اپنی دنیاوں میں واپس لوٹ گئے۔ ساحل نے اپنے پروجیکٹس میں خود کو جھونک دیا، اور تعریفات حاصل کیں۔ فرحانہ ایک کانفرنس پر گئیں، موسیقی تھراپی کی ورکشاپس میں شرکت کی، خلا کو بھرنے کی کوشش میں۔پھر بھی، کامیابی کے باوجود، ان کے دلوں میں درد تھا۔مہینوں بعد، سبرنرکھا دریا کے کنارے چھٹھ پوجا کے رنگین تہوار کے دوران، ان کی راہیں دوبارہ مل گئیں۔ جھلملاتے دی요ں اور بھکتی گیتوں کے بیچ، ان کی نگاہیں ملیں، اور جذبات کا سیلاب امڈ آیا۔ ان کے درمیان کی خاموشی بہت کچھ کہہ گئی۔وہ کھل کر باتیں کرنے لگے، شکوک اور خوف دور کیے، یہ سمجھا کہ وہ ایک دوسرے کو کتنا مس کرتے تھے۔ ساحل نے اپنی دوری کا معذرت کیا؛ فرحانہ نے اپنی جدوجہد تسلیم کی—جذبات اور محبت کے توازن کی۔روشن غروب آفتاب تلے، ساحل نے فرحانہ کا ہاتھ تھاما۔ "کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟" انہوں نے عاجزی سے پوچھا۔ان کی آنکھوں میں آنسو چمک اٹھے جب انہوں نے سر ہلایا۔ان کی شادی روایات اور جدیدیت کا خوبصورت امتزاج تھی—سادہ مگر گہرا، جمشیدپور کے سرسبز باغات میں خاندان اور دوستوں کے ساتھ منایا گیا۔ جوڑے نے عہد کیا کہ وہ اپنے خوابوں کے ساتھ اپنی محبت کو پالینگے، زندگی کی موڑوں پر ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ساتھ مل کر، سید ساحل احمد اور فرحانہ احمد نے مشترکہ شوقوں سے زیادہ پایا—انہوں نے اعتماد، احترام اور گہری، دائمی محبت پر مبنی ایک شراکت داری کی دریافت کی۔

Comments
Post a Comment