Pardhi community nomadic tribal group in India
Pardhi community nomadic tribal group in India
پاردھی کمیونٹی - بھارت میں خانہ بدوش قبائلی گروہ
پاردھی کمیونٹی بھارت میں ایک خانہ بدوش قبائلی گروہ ہے جو بنیادی طور پر مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، گجرات، راجستھان، چھتیس گڑھ اور کرناٹک کے کچھ حصوں میں پائی جاتی ہے۔ "پاردھی" لفظ مراٹھی کے "پرادھ" سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب شکار ہے، جو ان کے روایتی پیشے کی عکاسی کرتا ہے۔ انہیں مختلف ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، جیسے اڈویچنچر، فانس پاردھی، لنگولی پاردھی، باہیلیا، چیتا پاردھی، شکاری، اور تکانکر۔ یہ کمیونٹی مختلف ذیلی گروہوں میں تقسیم ہے، جیسے واگھری پاردھی اور فیس پاردھی، جبکہ مزید ذیلی تقسیم میں پال پاردھی، گاؤں پاردھی، اور تکانکر شامل ہیں۔ ان کے عام خاندانی ناموں میں چوہان (چوان)، راٹھور اور سولنکی شامل ہیں۔
تاریخی پس منظر
پاردھی قبیلے اپنے نسب کا سراغ راجپوتوں سے جوڑتے ہیں، جس کا ثبوت ان کے خاندانی نام اور آپس میں راجستھانی بولیوں کا استعمال ہے۔ تاریخی طور پر، یہ شکاری اور قدیم اسلحے کے ماہر تھے، جو انہیں گوریلا جنگ میں مؤثر بناتا تھا۔ برطانوی حکومت کے خلاف ان کی مزاحمت کی وجہ سے 1871 کے "کریمنل ٹرائبز ایکٹ" کے تحت انہیں "مجرم قبیلہ" قرار دیا گیا۔ اگرچہ یہ درجہ بندی 1952 میں منسوخ کر دی گئی تھی، لیکن اس سے منسلک بدنما داغ آج بھی برقرار ہے، جس کی وجہ سے انہیں معاشرتی علیحدگی اور اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔
سماجی ڈھانچہ اور ثقافت
پاردھی کمیونٹی کی ثقافت راجپوت اور گجراتی اثرات کا امتزاج ہے۔ یہ لوگ شکتی پنتھ (Shaktism) کے پیروکار ہیں اور ماولی ماتا، کالیکا ماتا، سپتاشرنگی ماتا، وڈیکھن ماتا، اور کھوڈییار ماتا جیسی دیویوں کی پوجا کرتے ہیں۔ دسہرا ان کے لیے ایک اہم تہوار ہے، جس میں وہ اپنے راجپوت ورثے کی روایت کے تحت جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔ جدیدیت کے باوجود، بہت سے پاردھی اپنی روایتی رسومات اور عادات پر قائم ہیں، اور ایک منفرد ثقافتی شناخت رکھتے ہیں۔
سماجی و اقتصادی حیثیت
1972 کے "وائلڈ لائف (پروٹیکشن) ایکٹ" کے ذریعے شکار کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد پاردھی قبیلے کی روایتی روزی روٹی شدید متاثر ہوئی۔ نتیجتاً، ان میں سے کئی لوگ زرعی مزدوری، کوڑا چننے، اور دیگر مزدوری کے پیشوں میں مجبور ہو گئے۔ مدھیہ پردیش کے بھوپال میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، 221 پاردھی خاندانوں میں سے صرف 5 خاندان ایسے تھے جو بے دخلی یا نقل مکانی کی تاریخ نہیں رکھتے تھے، جو ان کی معاشی عدم استحکام کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کمیونٹی شدید امتیازی سلوک، غربت، اور تعلیمی و روزگار کے محدود مواقع کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ان کا سماجی و اقتصادی زندگی میں شمولیت محدود ہو جاتی ہے۔
پاردھی کمیونٹی جھارکھنڈ میں
جھارکھنڈ میں پاردھی کمیونٹی کی آبادی کے متعلق مخصوص اعداد و شمار محدود ہیں۔ تاہم، چونکہ یہ کمیونٹی چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش جیسے ہمسایہ ریاستوں میں موجود ہے، اس لیے جھارکھنڈ کے سرحدی علاقوں میں ان کی چھوٹی بستیاں پائی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، 2011 کی مردم شماری کے مطابق چھتیس گڑھ کے دھم تری ضلع کے ناگری سب ڈسٹرکٹ میں "پاردھی گاؤں" کی کل آبادی 128 تھی۔ اس گاؤں کی شرح خواندگی 66.67% تھی، جس میں مردوں کی شرح خواندگی 78% اور خواتین کی 55.1% تھی۔ یہاں 67.97% آبادی درج فہرست قبائل (Scheduled Tribes) پر مشتمل تھی، جبکہ جنسی تناسب 970 خواتین فی 1000 مرد تھا۔
چیلنجز اور خواہشات
پاردھی کمیونٹی اب بھی تاریخی بدنامی کے ورثے سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے انہیں سماجی اخراج اور معاشی پسماندگی کا سامنا ہے۔ ان کی خانہ بدوش طرز زندگی اور سرکاری دستاویزات کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں اکثر سرکاری فلاحی اسکیموں اور روزگار کے مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے۔
پاردھی کمیونٹی کی امنگوں میں بہتر روزگار کے مواقع، تعلیم تک رسائی، اور سماجی بہبود کے پروگراموں میں شمولیت شامل ہیں۔ ان کے حقوق کے لیے کی جانے والی وکالت میں پالیسی اقدامات پر زور دیا جاتا ہے جو ان کے منفرد مسائل کو حل کریں، سماجی انضمام کو فروغ دیں، اور معاشی خود مختاری کو ممکن بنائیں۔
نتیجہ
پاردھی کمیونٹی کی ثقافتی وراثت بہت گہری اور مالامال ہے، لیکن انہیں تاریخی پسماندگی اور امتیازی سلوک کے باعث بہت سے سماجی و معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کی ترقی کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں سماجی پہچان، معاشی تعاون، اور تعلیمی منصوبے شامل ہوں تاکہ انہیں مرکزی دھارے میں شامل کیا جا سکے اور ان کی ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھا جا سکے۔
جھارکھنڈ میں "پردیہ" کی اصطلاح مخصوص علاقوں کے لیے استعمال ہوتی ہے نہ کہ کسی مخصوص برادری یا قبیلے کے لیے۔
قابل ذکر ہے کہ جمشدپور میں "پارسودیہ" نامی ایک علاقہ ہے، اور جامتارا ضلع میں "پگرادیہ" نامی ایک گاؤں ہے۔
پارسودیہ، جمشدپور:
پارسودیہ، جھارکھنڈ کے شہر جمشدپور کے مضافات میں واقع ایک رہائشی علاقہ ہے۔ یہ ٹاٹا نگر ریلوے اسٹیشن سے آگے، ٹاٹا-چائیباسا ہائی وے کے قریب واقع ہے۔ یہ علاقہ بنیادی طور پر نجی مکانات اور اپارٹمنٹس پر مشتمل ہے۔ یہاں زیادہ تر بنگالی بولنے والے افراد آباد ہیں، تاہم ہندی، اوڑیہ اور سنتھالی زبانیں بھی عام طور پر بولی جاتی ہیں۔
2001 کی مردم شماری کے مطابق، پارسودیہ کی آبادی تقریباً 80,000 تھی، جس میں مردوں کا تناسب 51% اور خواتین کا 49% تھا۔ اس وقت یہاں کی اوسط خواندگی کی شرح 71% تھی، جو قومی اوسط سے زیادہ تھی۔ یہ علاقہ ایک متحرک بازار کے لیے جانا جاتا ہے، جو خاص طور پر "ہاٹ" (ہفتہ وار بازار) کے دنوں میں کافی مصروف ہوتا ہے۔ یہاں تازہ سبزیاں، پھل، مچھلی، مرغی اور گوشت دستیاب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پارسودیہ میں ایک پولیس اسٹیشن بھی موجود ہے جو عوامی انتظامیہ اور سیکیورٹی کو یقینی بناتا ہے۔
پگرادیہ گاؤں، جامتارا ضلع:
پگرادیہ، جھارکھنڈ کے جامتارا ضلع کی جامتارا سب ڈویژن میں واقع ایک گاؤں ہے۔ یہ جامتارا (ضلع اور تحصیل کا صدر مقام) سے تقریباً 6 کلومیٹر دور ہے۔
یہ گاؤں 311 ہیکٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے، اور یہاں کی کل آبادی 786 افراد پر مشتمل ہے، جن میں 384 مرد اور 402 خواتین شامل ہیں۔ اس گاؤں کی خواندگی کی شرح 40.97% ہے، جس میں مردوں کی شرح 51.30% اور خواتین کی شرح 31.09% ہے۔
یہاں تقریباً 152 گھرانے آباد ہیں اور یہ "منجھیا گرام پنچایت" کے تحت آتا ہے۔
جھارکھنڈ کے روایتی ملبوسات اور سماجی روایات:
جھارکھنڈ کی ثقافتی ورثہ اس کی روایتی پوشاک اور سماجی رسم و رواج میں بخوبی جھلکتا ہے:
مردوں کا روایتی لباس:
مرد عموماً دھوتی-کرتا پہنتے ہیں۔ دھوتی ایک غیر سلی ہوئی چادر ہوتی ہے، جو کمر اور ٹانگوں کے گرد لپیٹی جاتی ہے، جبکہ کرتا ایک لمبی قمیص کی طرح ہوتا ہے جو اوپری جسم پر پہنی جاتی ہے۔ یہ لباس سادگی کی علامت ہے اور جھارکھنڈ کے گرم اور مرطوب موسم کے مطابق موزوں ہے۔
اس کے علاوہ، مرد حضرات اکثر "گمچھا" (روایتی کپڑے کا تولیہ) رکھتے ہیں، جو مختلف کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔ کچھ لوگ "پگڑی" یا "سافہ" بھی پہنتے ہیں، جو عزت اور فخر کی علامت ہے۔
عورتوں کا روایتی لباس:
خواتین عام طور پر ساڑھیاں پہنتی ہیں، جو اکثر تسّر ریشم (Tussar Silk) سے بنی ہوتی ہیں۔ جھارکھنڈ میں تیار ہونے والی تسّر ساڑھیاں اپنی چمکدار رنگت اور منفرد ڈیزائن کی وجہ سے مشہور ہیں، جن میں مقامی نباتات، جانوروں اور قبائلی علامتوں کے نقوش بنائے جاتے ہیں۔
"پڑیہا ساڑی" (Padiya Saari) جھارکھنڈ کے اوراؤں (Oraon) اور منڈا (Munda) قبائل میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ یہ عام طور پر سفید رنگ کی ہوتی ہے، جس کے کناروں پر سرخ رنگ کی بارڈر ہوتی ہے۔
عورتیں چاندی کے زیورات پہننے کو ترجیح دیتی ہیں اور اکثر اپنے بالوں میں تازہ پھول سجاتی ہیں، جو فطرت سے ان کی محبت کو ظاہر کرتا ہے۔
شادی کی روایات:
جھارکھنڈ میں شادیاں عام طور پر سادگی اور روایتی انداز میں انجام دی جاتی ہیں۔
دلہنیں عام طور پر ساڑھی پہنتی ہیں، اور ان کے لباس کے رنگ اور ڈیزائن ان کے قبیلے اور ذاتی ترجیحات کے مطابق مختلف ہوتے ہیں۔
- کچھ قبائل میں سفید ساڑھی کے ساتھ سرخ بارڈر پسند کیا جاتا ہے،
- جبکہ دوسرے قبائل شوخ اور رنگین ساڑھیاں پہنتے ہیں۔
دولہا عموماً "بھاگوان" (Bhagwan) نامی ایک کپڑا پہنتا ہے، جو دھوتی جیسا ہوتا ہے۔
تاہم، جدید دور میں کچھ لوگ شیروانی، کڑھائی والے کرتا یا مغلئی لباس بھی پہنتے ہیں۔
نتیجہ:
اگرچہ "پردیہ" جھارکھنڈ کے مخصوص مقامات کے لیے استعمال ہونے والا ایک نام ہے، لیکن یہ کسی خاص برادری یا قبیلے سے منسلک نہیں ہے۔
جھارکھنڈ کے لوگوں کی ثقافتی زندگی، روایتی ملبوسات، پیشے اور شادی بیاہ کی رسومات ان کے قدیم رسم و رواج، فطرت سے قربت، اور سادگی کے اصولوں پر مبنی ہیں۔
یہ ریاست اپنی قبائلی ثقافت، روایتی لباس، اور مخصوص سماجی رسم و رواج کی وجہ سے ایک منفرد پہچان رکھتی ہے۔
Comments
Post a Comment