Diabetes Fear Psychology and Overdiagnosis
Diabetes Fear Psychology and Overdiagnosis
ذیابیطس: خوف کی نفسیات اور غیر ضروری تشخیص
ذیابیطس ایک بہت بڑی صنعت بن چکی ہے، جہاں ڈاکٹرز، دواساز کمپنیاں، تشخیصی مراکز، اور متبادل ادویات کے کاروباری لوگ اس بیماری کے خوف سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جیسے ہی کسی شخص کو ذیابیطس یا خون میں شکر کی سرحدی سطح کی تشخیص ہوتی ہے، اسے بار بار ٹیسٹ کروانے، مہنگے علاج کرانے اور زندگی بھر انسولین اور دیگر مہنگی دواؤں پر انحصار کرنے کے جال میں پھنسا دیا جاتا ہے۔
خوف کی نفسیات اور غیر ضروری تشخیص
بہت سے ڈاکٹرز خوف کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ مریضوں کو مستقل علاج پر مجبور رکھا جا سکے۔ مریضوں کو یہ یقین دلا دیا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے فوری طور پر دوائیں نہ لیں تو انہیں اندھا پن، گردوں کی خرابی، اعضا کی کٹائی، یا دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ ذیابیطس ایک سنگین بیماری ہے، لیکن اسے جس طرح مارکیٹ کیا جاتا ہے، وہ غیر ضروری خوف پیدا کر دیتا ہے۔ بہت سے افراد کو بار بار خون کے ٹیسٹ اور مسلسل مانیٹرنگ میں ڈال دیا جاتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ قدرتی طریقوں سے بیماری کو قابو پانے پر غور کریں۔
اخراجات کا فرق – امیر اور غریب
امیر افراد کے لیے ذیابیطس کا علاج ایک عام خرچ ہے—وہ مہنگی انسولین، جدید مانیٹرنگ ڈیوائسز، اور بہترین طبی سہولیات باآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ غیر صحت مند طرزِ زندگی اپناتے ہیں اور پھر اپنے علاج پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ دوسری طرف، غریب لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ بنیادی ادویات بھی خریدنے کے قابل نہیں ہوتے اور اکثر سرکاری اسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں، جہاں سہولیات ناکافی ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ انسولین یا جدید ٹیسٹ نہیں کروا سکتے اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ادویات پر حد سے زیادہ انحصار اور طرزِ زندگی میں تبدیلی کو نظرانداز کرنا
ڈاکٹرز اور دواساز کمپنیاں شاذ و نادر ہی مریضوں کو طویل مدتی حل، جیسے کہ متوازن غذا، ورزش، اور طرزِ زندگی میں بہتری کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کے بجائے، وہ ایسی دوائیں تجویز کرتے ہیں جو بعض اوقات مضر اثرات کا سبب بنتی ہیں اور مزید طبی مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ موجودہ نظامِ صحت علامات کو دبانے پر توجہ دیتا ہے، بجائے اس کے کہ بیماری کی جڑ کو ختم کرے۔
جڑی بوٹیوں، یوگا، اور متبادل "علاج" کا بڑھتا ہوا رجحان
اس موقع کو دیکھتے ہوئے، ہربل انڈسٹری، یوگا ماہرین، اور خود ساختہ صحت کے ماہرین بھی اس کاروبار میں کود پڑے ہیں۔ وہ جڑی بوٹیوں کے علاج، معجزاتی نسخے، اور آیورویدک طریقے بیچتے ہیں، جن کے سائنسی ثبوت بہت کم ہوتے ہیں۔ بہت سے افراد مہنگے علاج سے بچنے کے لیے ان طریقوں کا سہارا لیتے ہیں، جو بعض اوقات ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ کچھ متبادل طریقے واقعی فائدہ مند ہو سکتے ہیں، لیکن بہت سے محض پیسہ کمانے کا ذریعہ ہیں، جن کا حقیقی فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
روحانی رہنماؤں کے ذریعے استحصال
حتیٰ کہ بعض روحانی رہنما بھی ذیابیطس کے علاج کی صنعت میں شامل ہو چکے ہیں۔ وہ یوگا کیمپ منعقد کرتے ہیں، ہربل سپلیمنٹس بیچتے ہیں، اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ روحانی مشقوں کے ذریعے ذیابیطس کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ذہنی سکون اور دباؤ میں کمی ذیابیطس کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن جھوٹے دعوے کرنا اور لوگوں سے بھاری فیس وصول کرنا بھی ایک طرح کا استحصال ہے۔
حکومتی قوانین کی ضرورت
حکومت کو اس کاروبار کو قابو میں لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں:
- ذیابیطس کی تشخیص پر سختی سے نگرانی – خون میں شکر کی معمولی سطح کو فوری طور پر بیماری تصور کر کے دوائی شروع کرنا درست نہیں۔ پہلے طرزِ زندگی میں بہتری کی کوشش کی جانی چاہیے۔
- سستی ادویات اور انسولین کی دستیابی – ذیابیطس کی دوائیں مناسب قیمتوں پر فراہم کی جانی چاہئیں تاکہ غریب افراد بھی ان تک رسائی حاصل کر سکیں۔
- آگاہی مہمات برائے احتیاطی تدابیر – عوامی مہمات کے ذریعے لوگوں کو یہ سکھایا جائے کہ دواؤں کے بجائے متوازن غذا، ورزش، اور دباؤ میں کمی کے ذریعے بھی ذیابیطس کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔
- متبادل علاج کی سائنسی جانچ – ہربل ادویات اور یوگا کو سائنسی تحقیق کی بنیاد پر پرکھا جائے اور صرف مستند اور مؤثر علاج کو فروغ دیا جائے۔
- طبی اخراجات میں شفافیت – لیبارٹریز اور اسپتالوں کو غیر ضروری ٹیسٹوں کے ذریعے لوگوں سے پیسے بٹورنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
نتیجہ
ذیابیطس ایک بیماری سے زیادہ ایک کاروبار بن چکی ہے، جہاں ہر کوئی پیسہ بنانے میں لگا ہوا ہے—چاہے وہ ڈاکٹر ہوں، دواساز کمپنیاں، یوگا ماہرین، یا روحانی رہنما۔ خوف پر مبنی علاج کے بجائے توجہ صحت مند زندگی، سستے علاج، اور سائنسی تحقیق پر ہونی چاہیے۔ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ علاج مؤثر، اخلاقی، اور سب کے لیے قابلِ رسائی ہو تاکہ لوگ خوف کے بجائے صحت مند طرزِ زندگی اپنا کر خوش رہ سکیں۔
Comments
Post a Comment