Sahara Deke Chora Hai, betrayal in love
Sahara Deke Chora Hai, betrayal in love
سہارا دے کے چھوڑا ہے
اقبال ایسا شخص تھا جس سے زیادہ تر لوگ دور رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ 28 سال کی عمر میں، وہ اپنی بدتمیزی، بےنظمی اور بے پرواہ رویے کے لیے مشہور تھا۔ اس کی بکھری ہوئی شکل و صورت اور تلخ زبان اکثر اسے دوسروں کے ساتھ الجھائے رکھتی تھی۔ لیکن اس کے کھردرے ظاہری روپ کے پیچھے ایک ایسا دل تھا جو محبت اور مقصد کے لیے تڑپ رہا تھا—اگرچہ خود اقبال کو بھی اس کا اندازہ نہیں تھا۔
پھر عائشہ کی آمد ہوئی، ایک 27 سالہ خاتون، جو صرف اپنی خوبصورتی ہی نہیں بلکہ اپنی مہربانی، ذہانت اور شائستگی کے لیے بھی جانی جاتی تھی۔ وہ حال ہی میں اس شہر میں منتقل ہوئی تھی اور ایک این جی او میں مشیر کے طور پر کام کر رہی تھی۔ تقدیر نے اسے اقبال کی بے ترتیب زندگی کے دائرے میں لا کھڑا کیا جب وہ ایک دن اپنے کزن کے لیے مدد لینے این جی او پہنچا۔
عائشہ نے پہلی ملاقات میں ہی اقبال کے اندرونی تضاد کو محسوس کر لیا۔ اس کے سخت لہجے اور ضدی رویے نے اسے پریشان نہیں کیا؛ بلکہ اس نے عائشہ کی دلچسپی بڑھا دی۔ اس کی آنکھوں میں ایک بےنام درد اور سمجھنے کی ایک بےچین خواہش نظر آتی تھی۔
اقبال، دوسری طرف، عائشہ سے حیران تھا۔ دوسروں کے برعکس، وہ اس کی سخت باتوں پر ناراض نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اسے نظرانداز کرتی تھی۔ وہ سنتی تھی، مسکراتی تھی، اور سب سے بڑھ کر، اس سے ایسے بات کرتی تھی جیسے وہ اہم ہو۔
وقت کے ساتھ، عائشہ اور اقبال نے زیادہ وقت ساتھ گزارنا شروع کیا۔ عائشہ نے اسے چھوٹی چھوٹی باتیں سکھائیں—غصے کو قابو کرنا، سننا، اور خود پر یقین کرنا۔ اقبال، ابتدا میں ہچکچاتے ہوئے، عائشہ کی پرسکون طبیعت اور گرمجوشی سے متاثر ہوا۔ اس کا اقبال پر یقین اس کے دل کے گرد بنائی گئی دیواروں کو آہستہ آہستہ توڑ رہا تھا۔
لیکن یہ سفر آسان نہیں تھا۔ اقبال کی گہری عادتیں اور جلد بازی اکثر ان کے درمیان تنازعات پیدا کرتی تھیں۔ ایسے لمحات بھی آئے جب وہ اپنی پرانی عادتوں کی طرف واپس لوٹ گیا—عائشہ کی نصیحتوں کو نظرانداز کرتا، غصہ کرتا، اور بری صحبت میں پھنس جاتا۔ عائشہ، اگرچہ دکھ پہنچا، لیکن ہار نہیں مانی۔ اس کا یقین تھا کہ اقبال میں موجود اچھائی کے لیے لڑنا ضروری ہے۔
ایک دن، ایک گرما گرم بحث کے دوران، اقبال نے جھنجھلا کر عائشہ پر الزام لگایا کہ وہ اسے قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے اور غصے میں وہاں سے چلا گیا۔ کئی ہفتے دونوں نے ایک دوسرے سے بات نہیں کی۔ اسی دوران اقبال کی زندگی میں ایک اندھیرا موڑ آیا۔ وہ ایک جھگڑے میں ملوث ہوا اور ایک رات کے لیے جیل پہنچ گیا۔
جب عائشہ اسے ضمانت پر چھڑانے آئی، تو اس نے اسے ڈانٹا نہیں۔ بلکہ ایک سیدھا سوال کیا: "اقبال، کیا یہ وہ انسان ہے جو تم بننا چاہتے ہو؟"
اس کے الفاظ اقبال کے دل میں گونجنے لگے۔ پہلی بار، اقبال نے ایمانداری سے اپنے آپ کو دیکھا اور وہ منظر پسند نہیں آیا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ اس شخص کو دھکیل رہا تھا جو واقعی اس کی پرواہ کرتا تھا۔
بدلنے کے عزم کے ساتھ، اقبال نے خود پر کام کرنا شروع کیا۔ اس نے این جی او کے اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام میں شمولیت اختیار کی، مقامی کمیونٹی پروجیکٹس میں مدد دینے لگا، اور آہستہ آہستہ منفی اثرات سے دور ہو گیا۔ عائشہ نے اس کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔
وقت کے ساتھ، اقبال ایک دیانت دار اور مقصد والے انسان میں تبدیل ہو گیا۔ اس کا اور عائشہ کا رشتہ پھلنے پھولنے لگا، حالانکہ راستے میں چیلنجز آئے۔ ان کے درمیان اختلافات ہوتے تھے، لیکن ہر مشکل کے ساتھ ان کا رشتہ مزید مضبوط ہوتا گیا۔
آخر میں، یہ عائشہ کا اقبال کی صلاحیتوں پر غیر متزلزل یقین تھا جس نے اس کی زندگی بدل دی۔ اور یہ اقبال کی اپنی خامیوں کا سامنا کرنے اور تبدیلی کو گلے لگانے کی ہمت تھی جس نے ان کی محبت کی کہانی کو واقعی غیر معمولی بنا دیا۔
"سہارا دے کے چھوڑا ہے"، شہر کے لوگ کہتے تھے، حیران ہوتے ہوئے کہ ایک عورت کے یقین اور ایک مرد کے عزم نے ایک سخت انسان کو بھی کسی خاص میں کیسے تبدیل کر دیا۔
Comments
Post a Comment