Nepal’s Social Media Ban — Between Freedom and Control
Nepal’s Social Media Ban — Between Freedom and Control
اداریہ: نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی — آزادی اور کنٹرول کے درمیان
اس دور میں جب دنیا ایک ڈیجیٹل دھاگے سے جڑی ہوئی ہے، نیپال خود کو ایک ایسے تنازعے کے بیچ میں کھڑا پاتا ہے جو اس کی سرحدوں سے کہیں بڑا ہے۔ حکومت کا حالیہ اقدام، جس کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگائی گئی ہے، نوجوانوں میں شدید بےچینی اور غصے کا باعث بنا ہے۔ یہ معاملہ صرف ایپس یا انٹرنیٹ تک محدود نہیں بلکہ جمہوریت، انسانی حقوق اور جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگی کے سوالات سے جڑا ہے۔
یہ سوال صدیوں پرانا ہے لیکن آج کے دور میں زیادہ شدید ہے: ایسی ٹیکنالوجی کو کس طرح کنٹرول کیا جائے جو ایک طرف لاکھوں کو بااختیار بناتی ہے اور دوسری طرف معاشروں کو غیر مستحکم کر سکتی ہے؟ نیپال میں جاری احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ یہ مسئلہ صرف ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر زیر بحث ہے۔ اصل جنگ حکومت اور عوام کے درمیان نہیں بلکہ کنٹرول اور آزادی، بےجا استعمال اور ذمہ دارانہ استعمال، اور خوف اور اعتماد کے درمیان ہے۔
پابندی کا پس منظر
نیپالی حکومت نے اس پابندی کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خلاف حفاظتی اقدام قرار دیا ہے۔ فیک نیوز، نفرت انگیز تقریر، سائبر بلیئنگ اور آن لائن فراڈ جیسے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ڈیجیٹل خواندگی ابھی محدود ہے، افواہوں کا پھیلاؤ واقعی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
یہ خدشات محض نیپال تک محدود نہیں۔ بھارت، سری لنکا، امریکہ اور یورپ میں بھی یہی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ وہاں قوانین اور ضابطے بنا کر مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ نیپال نے مکمل پابندی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین اسے عوامی تحفظ نہیں بلکہ اختلافی آوازوں کو دبانے کا ہتھیار قرار دے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا نیپال میں سیاسی اظہار، حکومت پر تنقید اور شہری تحریکوں کے لیے بنیادی پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ اس پر پابندی لگانا ایسا ہی ہے جیسے کسی ہال میں موجود ہزاروں افراد کے مائیکروفون اچانک بند کر دیے جائیں۔
نوجوانوں کا احتجاج
سب سے شدید ردعمل نوجوانوں کی طرف سے آیا ہے۔ ان کے لیے سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ زندگی ہے۔ یہ وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، روزگار ڈھونڈتے ہیں، خیالات بانٹتے ہیں اور خواب بُنتے ہیں۔
فری لانسرز ان پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا بھر سے کام حاصل کرتے ہیں۔ طلبہ آن لائن لیکچرز اور لائبریریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سرگرم کارکن اپنے مسائل پر آواز بلند کرتے ہیں۔ پابندی نے ان سب کے لیے دروازے بند کر دیے ہیں۔
اسی لیے نوجوانوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ ان کے نعروں میں “میری آواز میرا حق” اور “ہمارے پروں کو مت کاٹو” جیسے جملے شامل تھے۔ ان کے نزدیک یہ پابندی صرف سہولت کے خاتمے کا نہیں بلکہ ان کی ڈیجیٹل شناخت کے چھن جانے کا اعلان ہے۔
یہ معاملہ محض ایک تکنیکی اختلاف نہیں بلکہ ایک نسلی خلیج بھی ہے۔ بڑی عمر کے سیاست دان اور حکمران انٹرنیٹ کو خطرناک سمجھ کر قابو میں رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ نوجوان نسل اسے اپنی ترقی اور مستقبل کا مرکز سمجھتی ہے۔
سوشل میڈیا کی دوہری حقیقت
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ سوشل میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے۔
مثبت پہلو: یہ لوگوں کو قریب لاتا ہے، خاندانوں کو جوڑتا ہے، کاروبار کو فروغ دیتا ہے اور عام شہری کو آواز دیتا ہے۔
منفی پہلو: یہ افواہیں پھیلاتا ہے، ذہنی صحت پر اثر ڈالتا ہے، آن لائن بدسلوکی کو بڑھاتا ہے اور سیاسی پروپیگنڈے کا ذریعہ بنتا ہے۔
اسی دوہرے پن کی وجہ سے مسئلہ پیچیدہ ہے۔ سوشل میڈیا کو مکمل طور پر بند کرنا ایسے ہی ہے جیسے آگ بجھانے کے خوف سے اسے گھروں میں جلانے ہی نہ دیا جائے۔ حل پابندی نہیں بلکہ متوازن کنٹرول ہے۔
متوازن اقدامات میں شامل ہو سکتے ہیں:
1. ڈیجیٹل خواندگی کے پروگرام تاکہ عوام فیک نیوز اور سائبر کرائم سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔
2. ہدفی قوانین جو نفرت انگیز مواد اور جرائم کو روکیں مگر اظہارِ رائے پر قدغن نہ لگائیں۔
3. آزاد نگران ادارے جو غیرجانبداری سے سوشل میڈیا کی نگرانی کریں۔
4. سماجی ذمہ داری تاکہ خاندان، اسکول اور کمیونٹیاں نوجوانوں کو ذمہ دارانہ استعمال کی تربیت دیں۔
انسانی حقوق کا سوال
یہ معاملہ بنیادی طور پر آزادی اظہار سے جڑا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے ادارے اس پابندی کو شہری آزادیوں کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ یہ حق مطلق نہیں—اسے قومی سلامتی اور عوامی نظم کی خاطر محدود کیا جا سکتا ہے—لیکن شرط یہ ہے کہ پابندی ضروری، متناسب اور غیرامتیازی ہو۔
مکمل پابندی ان شرائط پر پورا نہیں اترتی۔ یہ چند غلط استعمال کرنے والوں کے جرم کی سزا پوری قوم کو دیتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ جمہوریت پر عوام کے اعتماد کو ہلا دیتی ہے۔
ایک عالمی مسئلہ
نیپال اکیلا نہیں۔ دنیا بھر میں یہی بحث جاری ہے:
بھارت نے نئے آئی ٹی قوانین نافذ کیے ہیں جن پر پرائیویسی کے خدشات ہیں۔
چین نے مکمل کنٹرول کے ساتھ عالمی پلیٹ فارمز پر پابندی لگا رکھی ہے۔
یورپی یونین نے ڈیجیٹل سروسز ایکٹ کے ذریعے شفافیت اور احتساب پر زور دیا ہے۔
امریکہ آزادی اظہار اور سوشل میڈیا کمپنیوں کی ذمہ داری کے درمیان توازن ڈھونڈ رہا ہے۔
نیپال کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ یورپ جیسا کھلا ماڈل اپناتا ہے یا چین جیسا کنٹرولڈ۔ یہ فیصلہ نہ صرف اس کے ڈیجیٹل مستقبل بلکہ جمہوری ڈھانچے کا بھی تعین کرے گا۔
سماج کا کردار
یہ مسئلہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں سے انٹرنیٹ کے خطرات پر بات کریں۔ اسکولوں کو نصاب میں ڈیجیٹل اخلاقیات شامل کرنی چاہیے۔ صحافیوں کو خبر نشر کرنے سے پہلے تصدیق کرنی چاہیے۔ عام شہریوں کو غیر مصدقہ خبریں آگے بڑھانے سے پہلے رکنا چاہیے۔
یعنی ڈیجیٹل آزادی کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت قوانین بنا سکتی ہے، مگر ذمہ دارانہ رویہ صرف سماج پیدا کر سکتا ہے۔
آگے کا راستہ
نیپال کو پابندی کے بجائے قومی مکالمہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نوجوانوں، اساتذہ، صحافیوں، کاروباری افراد اور انسانی حقوق کے نمائندوں کو ساتھ بٹھا کر حل تلاش کرنا چاہیے۔
ممکنہ اقدامات یہ ہو سکتے ہیں:
سائبر قوانین کو بہتر بنانا۔
ڈیجیٹل خواندگی کی مہمات شروع کرنا۔
مقامی اسٹارٹ اپس کو محفوظ پلیٹ فارمز بنانے میں مدد دینا۔
عالمی کمپنیوں کے ساتھ مل کر نیپالی زبانوں میں مواد کی نگرانی کو بہتر بنانا۔
آئینی ضمانتیں دینا کہ ایمرجنسی اختیارات کا غلط استعمال نہ ہو۔
نتیجہ: آزادی کے ساتھ ذمہ داری
دنیا بدل رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کو روکنا ممکن نہیں۔ اگر آزادی چھین لی جائے تو لوگ متبادل راستے ڈھونڈ لیں گے، اور حکومت پر اعتماد کم ہو جائے گا۔
اصل حل ایک ایسا فلسفہ ہے جو آزادی کے ساتھ ذمہ داری کو جوڑتا ہے۔ عوام کو اپنی رائے کہنے کی آزادی ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا احترام بھی لازم ہے۔ حکومت کو قوانین بنانے چاہئیں لیکن آوازیں دبائے بغیر۔
سوشل میڈیا پر پابندی وقتی سکون دے سکتی ہے، مستقل حل نہیں۔ اصل راستہ تعلیم، شعور اور مکالمے میں ہے۔ آزادی کو ایک دن میں چھینا یا دیا نہیں جا سکتا—اسے پروان چڑھانا اور محفوظ رکھنا پڑتا ہے۔
نیپال کے موجودہ حالات کو ناکامی نہیں بلکہ ایک موقع سمجھنا چاہیے—ایسا موقع کہ یہ سیکھ سکے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ کیسے جیا جائے، تبدیلی کو کیسے قبول کیا جائے اور جمہوریت کو ڈیجیٹل دور میں کیسے مضبوط بنایا جائے۔
سوشل میڈیا دشمن نہیں۔ اصل دشمن جہالت اور غلط استعمال ہے۔ حل پابندی میں نہیں بلکہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں ہے جہاں ٹیکنالوجی جوڑتی ہے، توڑتی نہیں؛ طاقت دیتی ہے، غلام نہیں بناتی؛ روشنی پھیلاتی ہے، اندھیرے نہیں۔
اگر نیپال یہ توازن قائم کر سکا تو وہ نہ صرف اپنے بحران کو حل کرے گا بلکہ دنیا کے لیے ایک ماڈل بھی بن سکتا ہے۔
Comments
Post a Comment