Aarif and Sabiya love story


Aarif and Sabiya love story
 

عارف خان ایک ہونہار نوجوان سافٹ ویئر انجینئر تھا۔ اس کا تعلق رانچی کے ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ والد ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر اور والدہ ایک عام گھریلو خاتون تھیں۔ انہوں نے عارف کو پڑھایا لکھایا تاکہ وہ خاندان کا سہارا بن سکے۔ برسوں کی محنت کے بعد عارف کو کولکتہ کی ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی۔

اسی کمپنی میں صابیہ رحمان بھی بطور سافٹ ویئر انجینئر شامل ہوئی۔ صابیہ نہ صرف ذہین تھی بلکہ پر اعتماد بھی۔ اس کا تعلق کولکتہ کے ایک معزز اور خوشحال مسلم گھرانے سے تھا۔ والد کامیاب بزنس مین اور خاندان اعلیٰ سماجی رتبہ رکھنے والا۔

ابتدا

ابتدا میں دونوں محض ساتھی تھے۔ دن رات کوڈنگ، کلائنٹ کالز اور پروجیکٹس پر مل کر کام کرتے۔ پھر یہ تعلق صرف دفتر تک محدود نہ رہا۔ وہ لنچ شیئر کرنے لگے، شام کو گپ شپ کے لیے کیفے جاتے اور کبھی کبھی دفتر کے بعد ہُگلی کے کنارے لمبی واک کرتے۔

ان کے درمیان دوستی محبت میں بدل گئی، مگر دونوں جانتے تھے کہ ان کے معاشرے میں خاندان کی عزت اور اسٹیٹس اکثر محبت پر حاوی ہوجاتا ہے۔

پہلا موڑ

ایک سال بعد عارف نے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ صابیہ نے پہلے ہچکچاہٹ دکھائی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا خاندان کبھی راضی نہ ہوگا۔ لیکن دل کی بات زبان پر آہی گئی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں جی سکتے۔

مگر بات جب خاندان تک پہنچی تو طوفان کھڑا ہوگیا۔

عارف کے والدین نے کہا کہ وہ بڑے گھرانے کے رشتے میں اپنی بے عزتی نہیں چاہتے۔

صابیہ کے والد نے سختی سے انکار کیا: “ہم نے تمہیں عزت، تعلیم اور ایک بہتر زندگی دی، اور تم ایک عام لڑکے کے پیچھے سب کچھ چھوڑنا چاہتی ہو؟”

کشمکش

دونوں کو کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا:

اسٹیٹس کا فرق: ایک طرف سادگی اور متوسط زندگی، دوسری طرف شان و شوکت اور اثر و رسوخ۔

برادری کا دباؤ: لوگ عزت اور بدنامی کی باتیں کرنے لگے۔

دفتر کی چہ میگوئیاں: ساتھیوں کی باتیں ان کے لیے مشکل پیدا کرنے لگیں۔

بہت سے لمحے آئے جب عارف نے سوچا کہ وہ پیچھے ہٹ جائے تاکہ صابیہ کی زندگی برباد نہ ہو۔ اور کئی دن ایسے بھی تھے جب صابیہ آنسو بہاتی رہی کہ وہ محبت اور والدین کی فرمانبرداری کے بیچ پس گئی ہے۔

فیصلہ

ایک شام، بارش میں پرنسپ گھاٹ پر بیٹھے دونوں نے فیصلہ کیا کہ اگر اب تک سب کچھ ساتھ جھیلا ہے تو آگے بھی ہمت نہیں ہاریں گے۔

عارف نے اپنے کام پر اور زیادہ توجہ دی، ایک بڑے پروجیکٹ کی کامیابی نے اسے پروموشن اور عزت دلا دی۔ صابیہ نے اپنے والدین سے ڈٹ کر کہا: “عزت صرف دولت سے نہیں، کردار سے بھی آتی ہے۔”

انجام

وقت نے آہستہ آہستہ سب بدل دیا۔ صابیہ کی والدہ نے خاموشی سے عارف کی محنت اور خلوص کو سراہا اور اپنے شوہر کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ بالآخر سخت دل باپ بھی مان گئے۔

دونوں کی شادی سادگی سے ہوئی، بغیر کسی دکھاوے اور نمود و نمائش کے۔ لیکن یہ شادی محبت اور جدوجہد کی اصل برکتوں سے بھری ہوئی تھی۔

اختتامیہ

سالوں بعد، عارف اور صابیہ، اب دونوں اپنی کمپنی میں سینئر مینیجر کے عہدے پر، جب ماضی کو یاد کرتے تو شکر ادا کرتے۔ وہ جانتے تھے کہ انہوں نے عزت، سماجی رکاوٹیں اور برادری کے دباؤ کا مقابلہ کیا، لیکن ہمت اور محبت نے انہیں کامیاب بنایا۔

ان کی کہانی آج کے نوجوانوں کے لیے مثال بن گئی:

محبت اور عزت ساتھ چل سکتے ہیں، اگر دل میں حوصلہ ہو۔

Comments

Popular posts from this blog

Social Detoxing: Breaking Free from Misinformation and Strengthening Relationships

Bird Flu Outbreak in Ranchi

ICC Champions Trophy 2025