Who is Driving Gen-Z to Such a Situation?


Who is Driving Gen-Z to Such a Situation?

نسلِ نو کو اس صورتحال تک کون لا رہا ہے؟

تحریر: نسرین کوثر جہاں

دنیا بھر میں حالیہ برسوں کے اندر نسلِ نو یعنی Gen-Z کے احتجاجات، تحرکات اور بیداری نے ایک سنگین سوال کو جنم دیا ہے۔ یہ نوجوان کہیں مثبت تبدیلی کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں تو کہیں ان کی سرگرمیوں کو انتشار اور عدم استحکام کا سبب مانا جاتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ آخر نسلِ نو کو اس نہج تک کون اور کیسے لے جا رہا ہے، اور قوم اس کا حل کس طرح نکال سکتی ہے؟

نسلِ نو کے اضطراب کے پسِ پردہ عوامل

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز

یہ نسل مکمل طور پر ڈیجیٹل دور میں پلی بڑھی ہے۔ انسٹاگرام، ٹک ٹاک، ایکس اور یوٹیوب ان کے جذبات، خیالات اور خوابوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز ایک طرف انہیں آواز اور طاقت دیتے ہیں لیکن دوسری جانب جھوٹ، شدت پسندی اور انتشار کو بھی بڑھاوا دیتے ہیں۔

سیاسی استحصال

کئی مرتبہ نوجوانوں کی تحریکوں کو سیاسی جماعتیں یا طاقتور عناصر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اکثر نوجوان جانے انجانے میں بڑے سیاسی کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔

معاشی مسائل اور بے روزگاری

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزگار کی کمی نوجوانوں کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے۔ جب نظام ان کی ضروریات پوری نہیں کرتا تو ان کی جھنجھلاہٹ بغاوت میں بدل جاتی ہے۔

ثقافتی تضاد اور شناخت کا بحران

عالمی اقدار اور روایتی اصولوں کے بیچ پھنس کر Gen-Z اپنی شناخت کے بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ الجھن کبھی کبھی انہیں روایات اور حکومتی ڈھانچوں کے خلاف کر دیتی ہے۔

مسئلے کو سمجھنا ضروری ہے

نوجوانوں کو محض ’’باغی‘‘ یا ’’گمراہ‘‘ کہہ دینا مسئلے کا حل نہیں۔ ان کے غصے کے پیچھے انصاف، مواقع اور شمولیت کی شدید طلب چھپی ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کیا گیا تو یہ بے چینی مزید بڑھے گی۔

لہٰذا ضروری ہے کہ:

نوجوانوں کی آواز کو سنا جائے۔

انہیں تعلیم، روزگار اور کاروبار کے مواقع دیے جائیں۔

ڈیجیٹل اثرات کو قانونی دائرے میں لایا جائے۔

انصاف اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ نوجوانوں کو یقین ہو کہ نظام ان کے ساتھ ہے۔

قانون کا کردار

ہر ملک کا آئین اور قانون اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اگر احتجاج پرامن ہے تو اسے جمہوریت کی صحت سمجھا جانا چاہیے، لیکن اگر تشدد یا توڑ پھوڑ ہو تو قانون کے مطابق سختی ضروری ہے۔

پرامن احتجاج کی اجازت ہونی چاہیے۔

عوامی اور سرکاری املاک کی تباہی ناقابلِ برداشت ہونی چاہیے۔

ان طاقتوں کو بھی جواب دہ بنایا جانا چاہیے جو نوجوانوں کو پسِ پردہ بھڑکاتی ہیں۔

مضبوط قیادت کی ضرورت

کسی بھی ملک کو نوجوانوں کے بے قابو اضطراب کے سامنے کمزور قیادت کا متحمل نہیں ہونا چاہیے۔ ضرورت ایک ایسی قیادت کی ہے جو:

نرمی اور سختی کا توازن رکھے۔

نوجوانوں کے لیے مستقبل کی پالیسی بنائے۔

قوم کو متحد کرے، نہ کہ تقسیم۔

نظام اور نوجوانوں کے درمیان اعتماد بحال کرے۔

نتیجہ

Gen-Z کی بے چینی ایک حقیقت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاشی بحران، ڈیجیٹل اثرات، سیاسی استحصال اور ثقافتی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اس کا حل جذبات کو دبانے میں نہیں بلکہ انہیں مثبت راستہ دینے میں ہے۔

اگر قوم اپنے نوجوانوں کو دانشمند قیادت، انصاف، روزگار اور مواقع فراہم کرے تو یہی نسل مستقبل کی ترقی کا سبب بن سکتی ہے۔ ورنہ یہی طاقت انتشار کا ذریعہ بھی بنے گی۔

آج وقت کا تقاضا ہے کہ قانون، مکالمہ، موقع اور وژنری قیادت کے ساتھ ملک کو ترقی کے راستے پر ڈالا جائے۔

Comments

Popular posts from this blog

Social Detoxing: Breaking Free from Misinformation and Strengthening Relationships

Bird Flu Outbreak in Ranchi

ICC Champions Trophy 2025