The Shadowed Struggler of Patna
The Shadowed Struggler of Patna
پٹنہ کا چھایا ہوا جدوجہد کرنے والا
پٹنہ کی مصروف گلیوں میں، پرانے مکانوں اور بڑھتے ہوئے شہر کے درمیان، راغو پرساد رہتا تھا، جس کی زندگی خواہشات اور سائے کا ایک عجیب امتزاج تھی۔ وہ او بی سی خاندان میں پیدا ہوا، جہاں بچپن مالی مشکلات، محدود مواقع اور اس احساس سے بھرا تھا کہ وہ اپنی کالونی کے امیر لڑکوں سے مختلف تھا۔ اس کا سانولا رنگ اور خاموش طبیعت اسے کسی بھی بھیڑ میں نظر انداز کردیتی تھی، جیسے وہ صرف ایک سایہ ہو جو اپنے زیادہ پر اعتماد ساتھیوں کے پیچھے چھپا ہوا ہو۔
ابتدائی تعلیمی زندگی: ایک غیر نمایاں آغاز
راغو نے ایک چھوٹے، غیر معروف اسکول میں تعلیم حاصل کی، جہاں اساتذہ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے، اور طلبہ اپنی تعلیم سے زیادہ زندگی کے مسائل سے لڑ رہے تھے۔ وہ نہ تو بہت ذہین تھا اور نہ ہی بہت کند ذہن—بس ایک عام سا طالب علم جو نظام میں کھو گیا تھا۔ لیکن اس میں ایک خاص خوبی تھی: وہ ہر چیز کو بغور دیکھتا تھا، ہر چیز کا مشاہدہ کرتا تھا۔
اس کی کالونی افسران کے بچوں سے بھری ہوئی تھی—بیوروکریٹس، ڈاکٹرز اور انجینئرز کے بیٹے، جو ہمیشہ چمکدار جوتے پہنتے، شستہ انگریزی بولتے، اور ایک خاص رعب و دبدبہ رکھتے تھے۔ راغو ان کے جیسے کبھی نہیں بن سکا، مگر اس نے ان کی نقل کرنا شروع کر دی—ان کے کپڑے، بات کرنے کا انداز، چال ڈھال—سب کچھ۔ وہ ان کے درمیان ایک جیسا دکھنا چاہتا تھا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ وہ مختلف تھا۔
ایک نوکری جو زندگی کا رخ بدل گئی
کسی طرح بمشکل گریجویشن مکمل کرنے کے بعد، راغو کے لیے کوئی سنہری موقع نہیں تھا۔ وہ رابطوں، اثر و رسوخ، اور خوداعتمادی کے بغیر تھا، جو پٹنہ میں اچھی نوکری حاصل کرنے کے لیے ضروری تھے۔ مگر قسمت نے اس کے ساتھ ایک اور کھیل کھیلا۔
کالونی میں ایک سینئر افسر نے اس کی ذات کو دیکھتے ہوئے اس کا نام او بی سی کوٹے میں شامل کروا دیا اور یوں راغو کو ایک سرکاری نوکری مل گئی۔ یہ کوئی اعلیٰ عہدہ نہیں تھا، مگر یہ ایک مستقل آمدنی اور ایک شناخت ضرور دے گیا۔ مگر اس کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔
کنجوس طبیعت اور بدلا نہ جانے والا ذہن
اب وہ ایک اچھی زندگی گزار سکتا تھا، مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔
- ہر پیسہ خرچ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا تھا۔
- کپڑے، جوتے، کھانے پینے کی چیزوں پر پیسہ لگانے میں اسے سخت تکلیف ہوتی تھی۔
- دوست مہنگے ہوٹلوں میں کھاتے، مالز میں خریداری کرتے، جبکہ راغو اب بھی وہی پرانے جوتے پہنتا تھا اور حساب کتاب کرتا تھا کہ کہاں اور کیسے بچت کی جائے۔
دفتر میں لوگ اسے محنتی مگر الگ تھلگ سمجھتے تھے، جبکہ اس کے پرانے دوست اس کے حد سے زیادہ محتاط ہونے پر مذاق اڑاتے۔ مگر راغو کی ایک ہی خواہش تھی—وہ اپنے امیر دوستوں کے برابر دکھائی دے، چاہے وہ حقیقت میں ایسا نہ ہو۔
شادی اور زندگی کی ایک نئی آزمائش
پھر ایک اور موڑ آیا—اس کی شادی۔
اس کے دوستوں نے اس کے مستحکم سرکاری نوکری کو دیکھتے ہوئے، اس کے لیے نیہا نامی ایک پڑھی لکھی اور مہذب لڑکی ڈھونڈ لی، جو ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔ نیہا کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں خاندانی آداب، معاشرتی تعلقات اور اچھے طور طریقے اہم تھے۔
شادی کے ابتدائی دنوں میں سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ نیہا اس کی کنجوسی سے تنگ آنے لگی۔
- وہ اچھی زندگی گزارنا چاہتی تھی، مگر راغو پیسہ خرچ کرنے سے ڈرتا تھا۔
- وہ رشتہ داروں کو دعوت دینا چاہتی تھی، مگر وہ بہانے بناتا تھا۔
- وہ خوشی کے لمحات جینا چاہتی تھی، مگر راغو ہر خرچ کو ایک بوجھ سمجھتا تھا۔
حقیقت سے سامنا اور ایک تلخ انکشاف
سماجی محفلوں میں راغو امیر دوستوں کی طرح دکھنے کی کوشش کرتا، مگر نیہا سب جان چکی تھی۔ وہ دیکھتی کہ وہ کسی سے مہنگی گھڑی ادھار لے کر محفل میں جاتا، کہیں سے بلیزر کرائے پر لے کر پہن لیتا، اور وہ سب کچھ بولتا جو اس نے کبھی کیا بھی نہیں تھا۔
ایک دن نیہا نے اس سے سوال کیا:
"تم ہر وقت پیسوں کے بارے میں کیوں سوچتے ہو؟ تمہارے پاس سب کچھ ہے، مگر تم اب بھی محتاجوں جیسی زندگی گزار رہے ہو۔ آخر کیوں؟"
راغو کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ سالوں تک ایک ایسی دنیا میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہا تھا جو کبھی اس کی تھی ہی نہیں۔
زندگی کا اصل سبق
زندگی نے اسے ایک سخت سبق سکھایا۔ ایک دن اس کے والدین کی طبیعت بگڑ گئی، علاج پر اتنے اخراجات آئے کہ اس کی ساری بچت ختم ہو گئی۔ بالآخر، وہ انہی دوستوں کے پاس مدد کے لیے گیا، جن کے جیسا بننے کی کوشش میں وہ خود کو کھو چکا تھا۔
دوستوں نے مدد تو کر دی، مگر راغو نے حقیقت کو پہچان لیا۔ پیسہ صرف بچانے کے لیے نہیں، بلکہ بہتر زندگی کے لیے بھی ہوتا ہے۔
حقیقی تبدیلی کا آغاز
راغو آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگا۔ وہ فضول خرچی نہیں کرنے لگا، مگر اس نے زندگی کے مزے لینے شروع کر دیے۔
- وہ نیہا کے ساتھ باہر جانے لگا، اب دکھاوے کے لیے نہیں، بلکہ خوشی کے لیے۔
- اس نے دوسروں کی طرح بننے کی کوشش چھوڑ دی اور اپنی اصل شخصیت کو اپنانا سیکھ لیا۔
- اس نے سیکھا کہ پیسہ دوبارہ کمایا جا سکتا ہے، مگر زندگی کے خوبصورت لمحات دوبارہ نہیں آتے۔
کہانی کا سبق
زندگی دوسروں کی طرح دکھنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے اصل وجود کو پہچاننے کا نام ہے۔
راغو کی کہانی صرف کنجوسی یا دولت کی نہیں، بلکہ خود کو قبول کرنے کی ہے۔
احترام دوسروں کی نقل کرنے میں نہیں، بلکہ اپنی سچائی کے ساتھ زندگی گزارنے میں ہے۔
اور یوں، آخر کار وہ اپنے سائے سے نکل کر ایک حقیقت بن گیا۔
Comments
Post a Comment