The Growing Acceptance of Love Marriages in India and Pakistan

 

The Growing Acceptance of Love Marriages in India and Pakistan

بھارت اور پاکستان میں محبت کی شادیوں کی بڑھتی ہوئی قبولیت

حالیہ برسوں میں، بھارت اور پاکستان میں نوجوانوں کے درمیان محبت کی شادیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو روایتی طور پر طے شدہ شادیوں سے خود چُنے گئے رشتوں کی طرف ایک ثقافتی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگرچہ ان دونوں معاشروں میں اب بھی زیادہ تر شادیاں خاندانی فیصلے کے تحت طے ہوتی ہیں، لیکن نئی نسلیں پرانے اصولوں کو چیلنج کر رہی ہیں، جس سے شادی اور رشتوں کے بارے میں ایک زیادہ ترقی پسند نقطہ نظر ابھر رہا ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف سماجی ڈھانچے کو ازسرِنو ترتیب دے رہی ہے بلکہ جہیز جیسی گہری جڑی ہوئی برائیوں پر بھی اثر ڈال رہی ہے۔

نوجوانوں میں محبت کی شادیوں کا رجحان

بھارت اور پاکستان میں خاص طور پر شہری علاقوں میں نوجوان اپنے جیون ساتھی کا انتخاب ذاتی ہم آہنگی، مشترکہ اقدار، اور جذباتی تعلق کی بنیاد پر کر رہے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ صرف والدین کے فیصلے پر انحصار کریں۔ اس رجحان میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں:

تعلیم اور مالی خودمختاری

اعلیٰ تعلیم اور مالی آزادی نوجوان مرد و خواتین کو اپنی زندگی کے فیصلے خود لینے کا اختیار دیتی ہے، جن میں شادی کا انتخاب بھی شامل ہے۔ خاص طور پر خواتین اب مکمل طور پر اپنے خاندان پر انحصار نہیں کرتیں، جس سے انہیں محبت کی شادیوں کا انتخاب کرنے کی آزادی ملتی ہے۔

عالمگیریت اور میڈیا کا اثر

انٹرنیٹ، فلموں، سوشل میڈیا اور سفر کے ذریعے عالمی ثقافتوں کے ساتھ رابطہ بڑھا ہے۔ اس سے محبت، رفاقت، اور باہمی احترام کے تصورات زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں، اور نوجوان ان روایات کو اپنانے لگے ہیں جو ذاتی خوشی کو ترجیح دیتی ہیں۔

شہری طرزِ زندگی اور بدلتی ہوئی روایات

شہری علاقوں میں مختلف پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے افراد دفاتر، یونیورسٹیوں اور سماجی میل جول کے مواقع پر ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں، جس سے انہیں خاندانی بندشوں سے ہٹ کر جذباتی تعلق قائم کرنے کا موقع ملتا ہے۔

شادی میں تاخیر کا رجحان

پہلی نسلوں کے مقابلے میں، آج کے نوجوان اپنی شادی کو موخر کر رہے ہیں تاکہ وہ پہلے اپنے کیریئر اور ذاتی ترقی پر توجہ دے سکیں۔ اس طویل دورانیے میں وہ اپنے رشتے کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور مستحکم بنیادوں پر شادی کا فیصلہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

خاندان خاموشی سے دیکھ رہے ہیں اور قبول کر رہے ہیں

اگرچہ پرانی نسل اب بھی روایتی اقدار کو برقرار رکھنے کی خواہاں ہے، لیکن وہ محبت کی شادیوں کو آہستہ آہستہ قبول کر رہے ہیں، جس کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں:

خوشی اور استحکام

والدین یہ محسوس کر رہے ہیں کہ محبت کی بنیاد پر ہونے والی شادیاں، جہاں دونوں شریکِ حیات ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں، زیادہ خوشگوار اور پائیدار ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ روایتی طور پر طے شدہ شادیوں میں بھی طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے والدین اپنے پرانے سخت رویوں پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں۔

سماجی مقام اور مالی نقطہ نظر

بہت سے خاندانوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ محبت کی شادیاں، خاص طور پر ایک ہی سماجی و معاشی حیثیت کے افراد کے درمیان، شادی کے غیر ضروری اخراجات، مہنگے جہیز اور دیگر مالی بوجھ کو کم کر دیتی ہیں۔

اگرچہ دیہی اور قدامت پسند طبقات میں ابھی بھی محبت کی شادیوں کے خلاف مزاحمت موجود ہے، لیکن وقت کے ساتھ، آگاہی اور کامیاب محبت کی شادیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات ان برادریوں کو بھی بدلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

جہیز کے نظام پر اثرات

بھارت اور پاکستان میں جہیز کی روایت ایک بڑی سماجی برائی بنی ہوئی ہے، لیکن محبت کی شادیوں کے بڑھنے سے اس میں کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں:

محبت کی بنیاد پر شادی، مالی معاہدے پر نہیں

محبت کی شادیوں میں، شریکِ حیات کا انتخاب جذباتی اور ذاتی مطابقت کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ مالی فوائد کے تحت۔ یہ براہِ راست اس تصور کو چیلنج کرتا ہے جس کے تحت جہیز کو دلہن کے مستقبل کو "محفوظ" کرنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔

خودمختار خواتین جہیز کی روایت مسترد کر رہی ہیں

اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کام کرنے والی خواتین جہیز کی روایت کو برداشت نہیں کرتیں۔ وہ ایسے شریکِ حیات کو ترجیح دیتی ہیں جو انہیں ان کی شخصیت کی بنیاد پر اپنائے، نہ کہ ان کے والدین کی دولت کی بنیاد پر۔

بیٹیوں کے والدین کے لیے سکون

روایتی شادیوں میں، دلہن کے والدین پر جہیز دینے کا دباؤ ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے لیے "اچھا رشتہ" حاصل کر سکیں۔ لیکن محبت کی شادیوں میں، یہ دباؤ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے کیونکہ شادی کا فیصلہ خود جوڑے پر منحصر ہوتا ہے اور خاندانی توقعات پسِ پردہ چلی جاتی ہیں۔

سماجی آگاہی اور قانونی پابندیاں

حکومتوں اور سماجی کارکنوں کی جانب سے جہیز مخالف مہمات جاری ہیں، لیکن حقیقی تبدیلی تب آتی ہے جب معاشرتی رویے بدلتے ہیں۔ محبت کی شادیوں کے بڑھنے سے، خاندانوں کی توجہ پیسے کے بجائے اصل رشتے پر مرکوز ہو رہی ہے، جس سے جہیز کے مطالبات میں قدرتی کمی آ رہی ہے۔

چیلنجز اور مستقبل کا راستہ

ترقی کے باوجود، محبت کی شادیوں کو ابھی بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ خاندانی عزت، ذات پات، مذہب، اور سماجی حیثیت جیسے عوامل ابھی بھی شادی کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بہت سے جوڑوں کو اپنے خاندانوں کی جانب سے مخالفت، جذباتی دباؤ، یا حتیٰ کہ خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بین المذاہب اور بین الطبقات شادیوں کے خلاف مزاحمت سب سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ تاہم، قانونی اور سماجی بیداری، اور نئی نسل کے بدلے ہوئے رویے، ان رکاوٹوں کو آہستہ آہستہ کم کر رہے ہیں۔

بھارت اور پاکستان میں محبت کی شادیوں کی قبولیت اس بات کی علامت ہے کہ معاشرے ترقی کر رہے ہیں، اور نوجوانوں کو اپنے شریکِ حیات کے انتخاب میں زیادہ آزادی حاصل ہو رہی ہے۔ اگرچہ خاندان شروع میں خاموشی سے اس تبدیلی کو دیکھتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ وہ ان رشتوں کو قبول کرنے لگتے ہیں اور ان کے فوائد کو پہچانتے ہیں۔ وقت کے ساتھ، اس رجحان سے جہیز کے نظام میں کمی آئے گی، جس سے ان ممالک میں زیادہ ترقی پسند، صنفی مساوات پر مبنی، اور محبت پر مبنی شادیوں کا کلچر فروغ پائے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

Social Detoxing: Breaking Free from Misinformation and Strengthening Relationships

Bird Flu Outbreak in Ranchi

ICC Champions Trophy 2025