The Beggar’s Gift
The Beggar’s Gift
فقیر کا تحفہ
یہ ایک روشن صبح تھی، اور پوش گرین ویو کالونی میں تازہ کافی کی خوشبو مہنگی گاڑیوں کے مدھم شور میں گھل رہی تھی۔ ہر طرف بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں، جن کے ارد گرد خوبصورت باغات اور جدید سیکیورٹی کیمرے نصب تھے، ہر آنے جانے والے پر نظر رکھے ہوئے۔ انہی میں سے ایک شاندار بنگلے میں مسٹر اور مسز مہتا رہتے تھے—ایک تعلیم یافتہ اور معزز جوڑا، جو اپنی شائستگی اور برتری پر بے حد نازاں تھا۔
مسز مہتا چالیس کے پیٹے میں داخل ہو چکی تھیں اور خیرات کرنا ان کا ایک پسندیدہ مشغلہ تھا، مگر مخصوص شرائط کے ساتھ۔ اگر کوئی این جی او ان سے چندہ مانگتی، تو وہ پہلے اس کے ٹیکس ریکارڈز اور رجسٹریشن سرٹیفکیٹ چیک کرتیں۔ وہ اپنے انداز میں ایک بڑی نیک دل خاتون تھیں—مگر صرف جب ان کے لیے آسانی ہو۔
اُسی صبح، جب وہ اپنے فون پر اس بات کا تجزیہ کر رہی تھیں کہ کون سا شہد واقعی خالص ہے، دروازے کی گھنٹی بجی۔
ڈِن-ڈونگ!
انہوں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک دبلا پتلا، باریش فقیر کھڑا تھا، جو بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس تھا۔ مگر اس کی چمکدار آنکھیں ایک ایسی ذہانت کی گواہی دے رہی تھیں جو اس کے حال سے میل نہیں کھاتی تھی۔ وہ نرمی سے ہاتھ جوڑ کر بولا:
"بی بی جی، میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔ کیا آپ تھوڑا کھانے کو دے سکتی ہیں؟"
مسز مہتا تھوڑی حیران ہوئیں۔ ان کا پہلا خیال یہ تھا کہ منع کر دیں—آخر ان دنوں بھکاریوں کے کئی فراڈ چل رہے تھے! مگر پھر ان کے ذہن میں ایک خیال آیا: یہ تو نیکی جتانے کا ایک بہترین موقع تھا۔
"ہاں، ہاں، رکو!" انہوں نے کہا اور اندر چلی گئیں۔
فریج کھولی اور چیزیں دیکھنے لگیں۔ بچی ہوئی کوئنوا سلاد؟ نہیں، وہ تو بہت قیمتی تھی۔ اوریگینک یونانی دہی؟ ہرگز نہیں، وہ تو چھ سو روپے کا ایک جار تھا! پھر انہیں رات کی بچی ہوئی خشک روٹیاں اور باسی دال نظر آئی۔ یہی ٹھیک تھا! انہوں نے وہ ایک ڈبے میں ڈالیں اور باہر آئیں۔
"یہ لو!" انہوں نے شاہانہ انداز میں کھانے کا ڈبہ فقیر کے حوالے کیا، جیسے کسی غریب پر احسان کر رہی ہوں۔
فقیر نے مسکرا کر دعا دی، "بی بی جی، اللہ آپ کو خوش رکھے!"
اور یہ کہہ کر وہ خوشی خوشی سیٹی بجاتا ہوا چلا گیا۔
اگلے دن کا حیران کن تحفہ
اگلی صبح پھر دروازے کی گھنٹی بجی۔
ڈِن-ڈونگ!
مسز مہتا نے جھنجھلا کر آنکھیں کھولیں۔ وہ ابھی آدھا گھنٹہ یوگا کر رہی تھیں، انسٹاگرام پر دیکھی گئی ایک نئی پوز کو آزمانے میں مصروف تھیں۔ غصے میں دروازہ کھولا، اور وہی فقیر کھڑا تھا!
"یہ کوئی لنگر خانے نہیں ہیں!" وہ غصے سے بولنا چاہتی تھیں، مگر اس سے پہلے فقیر نے ایک خوبصورت لپٹی ہوئی کتاب ان کے آگے بڑھا دی۔
"بی بی جی، آپ کے لیے تحفہ!" اس نے مسکرا کر کہا۔
مسز مہتا حیران ہوئیں۔ "یہ کیا ہے؟"
"آپ نے مجھ پر احسان کیا تھا، میں بھی بدلہ دینا چاہتا تھا!" یہ کہہ کر فقیر چل دیا، انہیں حیرانی میں چھوڑ کر۔
انہوں نے جلدی سے کتاب کی جلد پر نظر ڈالی، اور جیسے ہی انہوں نے عنوان پڑھا، ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
"کھانا پکانے کا طریقہ"
وہ سکتے میں آگئیں۔
پہلے تو انہیں لگا کہ شاید نظر کا دھوکہ ہے۔ مگر نہیں! یہ واقعی ایک ابتدائی نوعیت کی کتاب تھی، جس میں چاول اُبالنے سے لے کر روٹیاں پکانے تک کے تفصیلی طریقے دیے گئے تھے، وہ بھی تصویروں کے ساتھ!
مسز مہتا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ "یہ شخص احسان کا بدلہ دینے آیا تھا یا میری بےعزتی کرنے؟"
سارا دن وہ اسی بات پر جلتی کُڑھتی رہیں۔ پہلے اپنی دوست کو فون پر ساری روداد سنائی، پھر پڑوسن کو شکایت کی، اور آخر میں ملازمہ پر غصہ نکالا، جو سمجھداری سے خاموش رہی۔
شوہر کی قہقہہ
شام کو جب مسٹر مہتا دفتر سے واپس آئے، تو دروازے پر ہی ان کی بیوی نے ان پر حملہ کر دیا۔
"تم یقین نہیں کرو گے، آج کیا ہوا!"
مسٹر مہتا، جو ایک معروف وکیل تھے، تھکے ماندے چہرے کے ساتھ بولے، "پہلے جوتے تو اتارنے دو!"
"نہیں! پہلے میری بات سنو! وہی بھکاری، جسے میں نے کل خیرات میں کھانا دیا تھا، آج دوبارہ آیا اور—" انہوں نے تیزی سے کتاب ان کے ہاتھ میں تھما دی، "یہ تحفہ دے گیا! دیکھو کیا لکھا ہے!"
مسٹر مہتا نے کتاب پر نظر ڈالی۔
"کھانا پکانے کا طریقہ"
کچھ لمحوں کے لیے کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
پھر اچانک—
ایک ہلکی سی ہنسی کی آواز آئی۔
مسز مہتا کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ "تم ہنس کیوں رہے ہو؟"
مسٹر مہتا نے خود کو روکنے کی کوشش کی، مگر اگلے ہی لمحے وہ بےقابو ہو کر ہنسنے لگے۔
"یہ... یہ تو شاندار ہے!" وہ بمشکل بول پائے، ہنسی کے مارے آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ "اس نے تم سے کھانا مانگا، کھایا، اور پھر—ہا ہا ہا—فیصلہ کیا کہ تمہیں کھانا پکانا سیکھنے کی ضرورت ہے! ہا ہا ہا!"
مسز مہتا کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔ "یہ تمہیں مذاق لگ رہا ہے؟ یہ میری توہین ہے!"
"توہین؟" مسٹر مہتا نے بمشکل اپنی ہنسی روکی۔ "یہ تو تعلیم ہے! وہ تمہاری بہتری چاہتا ہے! یہ تو تعمیری تنقید ہے، بیگم!"
"تم کہنا چاہتے ہو کہ میرا کھانا خراب ہوتا ہے؟"
مسٹر مہتا نے جلدی سے سنبھالا لیا۔ "نہیں، نہیں! میں تو بس کہہ رہا ہوں کہ تعلیم ہر کسی کے لیے ضروری ہے، حتیٰ کہ... امیروں کے لیے بھی!" وہ پھر سے قہقہہ لگانے لگے۔
مسز مہتا نے غصے میں کتاب ان کے سینے پر دے ماری۔ "مجھے تم سے نفرت ہے!"
رات بھر مسٹر مہتا ہنستے رہے، اور مسز مہتا گوگل پر بہترین کوکنگ کلاسز تلاش کرتی رہیں۔
اور دوسری طرف، گرین ویو کالونی کے کسی ویران کونے میں، وہی فقیر ایک چراغ کے نیچے بیٹھا مسکرا رہا تھا، دل ہی دل میں خوش تھا کہ اس نے آج بھی کسی کی زندگی میں نیکی کا ایک بیج بو دیا تھا۔
Comments
Post a Comment