Daughter’s Father’s Home After Marriage

 Daughter’s Father’s Home After Marriage

By Nasrin Kousar Jahan

باپ کا گھر بیٹی کے لیے شادی کے بعد

بیٹی کے لیے اس کے باپ کا گھر ہمیشہ ایک خاص جذباتی، ثقافتی اور نفسیاتی اہمیت رکھتا ہے، چاہے وہ شادی کے بعد کہیں بھی چلی جائے۔ یہ محض ایک مکان نہیں، بلکہ ایک محبت بھرا آشیانہ ہے، جہاں بچپن کی حسین یادیں بسی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی دوسرا گھر، یہاں تک کہ اس کا سسرال بھی، باپ کے گھر کے سکون اور فخر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

ایک ایسا گھر جو ہمیشہ خاص رہے گا

بیٹی کے لیے اس کا باپ کا گھر اس کی جڑوں کی مانند ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اسے بے لوث محبت ملی، اس کی پرورش ہوئی، اور اس کی شخصیت کی بنیاد پڑی۔ شادی کے بعد اگرچہ وہ اپنی زندگی کہیں اور گزار رہی ہوتی ہے، لیکن اس کے دل میں باپ کے گھر کی محبت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ جب وہ واپس آتی ہے، تو یہ محض ایک ملاقات نہیں، بلکہ ایک جذباتی واپسی ہوتی ہے۔

اس گھر میں ہر دیوار، ہر کونا، اس کی بچپن کی یادوں، ہنسی، آنسو، اور خوابوں کا امین ہوتا ہے۔ یہاں وہ بنا کسی پریشر کے، بغیر کسی ججمنٹ کے، خود کو آزاد محسوس کرتی ہے۔ والدین کی آغوش، پرانے کمروں کی خوشبو، اور وہی محبت اسے دوبارہ زندہ کر دیتی ہے۔

شادی کے بعد گھر آنے کی منصوبہ بندی اور قیام

ایک شادی شدہ بیٹی کے لیے اپنے باپ کے گھر واپس آنا آسان نہیں ہوتا۔ اسے اپنی سسرال کی ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ جب وہ اپنے باپ کے گھر آتی ہے، تو وہ چاہتی ہے کہ اسے وہی خوشی، اپنائیت اور عزت دی جائے جو پہلے دی جاتی تھی۔

لیکن اگر اس کے قیام کو مشکل بنا دیا جائے، خاص طور پر بھائیوں کی طرف سے، تو یہ خوشی دکھ میں بدل سکتی ہے۔

جب بھائی بیٹی کے لیے مشکلات پیدا کریں

سب سے زیادہ افسوسناک صورت حال تب پیدا ہوتی ہے جب بیٹی کے اپنے ہی بھائی، جو اس کے محافظ ہونے چاہئیں، اس کے لیے دروازے بند کرنے لگیں۔ بعض بھائی جائیداد کے لالچ، مالی فائدے، یا بدلتے ہوئے خاندانی تعلقات کی وجہ سے بہن کو اس کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ اس پر پابندیاں لگا سکتے ہیں، اسے غیر ضروری طور پر احساس دلا سکتے ہیں کہ وہ پرائی ہو چکی ہے، یا پھر اسے وہ جگہ دینے سے انکار کر سکتے ہیں جو ہمیشہ اس کی رہی ہے۔ یہ بیٹی کے لیے ایک ناقابلِ برداشت لمحہ ہوتا ہے، جو اس کے جذباتی رشتے کو توڑ دیتا ہے۔

کوئی طاقت بیٹی کے اس سکون کی جگہ نہیں لے سکتی

باپ کے گھر سے بیٹی کی جذباتی وابستگی بہت گہری ہوتی ہے۔ اگر اسے وہاں سے بے دخل کر دیا جائے یا اجنبی محسوس کروایا جائے، تو دنیا کی کوئی دولت، کوئی عیش و آرام، حتیٰ کہ سسرال کی محبت بھی اس تکلیف کی بھرپائی نہیں کر سکتی۔ یہ ایک ایسا زخم ہوتا ہے جو ہمیشہ تازہ رہتا ہے اور اس کے دل کو چیر کر رکھ دیتا ہے۔

چچا کا کردار: بیٹی کی سپورٹ کا ستون

والدین کے بعد اگر کوئی بیٹی کی بات سنتا ہے، تو وہ اس کے چچا ہوتے ہیں۔ ایک اچھا چچا سمجھتا ہے کہ اس کی بھتیجی کا اپنے والد کے گھر پر پورا حق ہے، اور وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ اسے عزت اور سکون ملے۔

چچا نہ صرف اس کے درد کو سمجھتا ہے بلکہ خاندان میں ایک ثالث کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ وہ بھائیوں کو ان کی اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری یاد دلاتا ہے، اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بیٹی کو وہ احترام دیا جائے جس کی وہ حق دار ہے۔

بیٹی کو ہوٹل میں جانے پر مجبور کرنا: سب سے بڑا دھچکا

بیٹی کے لیے سب سے بڑی توہین اور تکلیف دہ لمحہ وہ ہوتا ہے جب اسے اپنے ہی باپ کے گھر جگہ نہ ملے اور وہ اپنے ہی شہر میں ہوٹل میں رہنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ ایک ایسا دکھ ہے جو بیٹی کے جذبات کو بری طرح مجروح کر دیتا ہے۔

یہ صرف ایک معمولی واقعہ نہیں، بلکہ جذباتی سطح پر ایک گہرا زخم ہے، جو اسے احساس دلاتا ہے کہ وہ اپنے ہی خاندان میں اجنبی ہو چکی ہے۔

بیٹی کی جدوجہد: عزت اور حق کی بحالی

لیکن ایک مضبوط اور خوددار بیٹی اس ناانصافی کو آسانی سے قبول نہیں کرتی۔ وہ اپنی عزت اور حق کی بحالی کے لیے کھڑی ہوتی ہے، چاہے وہ قانونی راستہ ہو، جذباتی استقامت ہو، یا خاندانی ثالثی ہو۔

یہ جنگ صرف جائیداد یا کسی مالی حق کے لیے نہیں، بلکہ وقار، محبت اور انصاف کے لیے ہوتی ہے۔ بیٹی کے لیے اس کے والد کا گھر مقدس ہوتا ہے، اور وہ اسے کسی بھی قیمت پر اپنے حق سے محروم نہیں ہونے دے گی۔

نتیجہ

بیٹی کے لیے اس کا باپ کا گھر ہمیشہ ایک فخر اور محبت کا مقام ہوتا ہے۔ کوئی دوسرا گھر، چاہے وہ کتنا ہی بڑا اور شاندار کیوں نہ ہو، اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ بھائیوں کو اس گہرے تعلق کو سمجھنا چاہیے اور اپنی بہن کو وہ عزت دینی چاہیے جو اس کا حق ہے۔

چچا کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے اور بیٹی کے حق میں کھڑے ہونا چاہیے، تاکہ وہ اس کے باپ کے گھر کی عزت اور سکون کو بحال کر سکے۔

اور اگر بیٹی کو اس کے حق سے محروم کیا جائے، تو اسے مضبوطی سے کھڑا ہونا چاہیے، اپنی عزت اور وقار کے لیے لڑنا چاہیے، اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس کا والد کا گھر ہمیشہ اس کا رہے۔

بیٹی کا اپنے باپ کے گھر سے تعلق ہمیشہ اٹوٹ ہوتا ہے، اور کوئی اسے اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔

Comments

Popular posts from this blog

Social Detoxing: Breaking Free from Misinformation and Strengthening Relationships

Bird Flu Outbreak in Ranchi

ICC Champions Trophy 2025